غبار جاں سے ستارا نکلنا چاہتا ہے
یہ آسمان بھی کروٹ بدلنا چاہتا ہے
مرے لہو کا سمندر اچھلنا چاہتا ہے
یہ چاند میرے بدن میں پگھلنا چاہتا ہے
سیاہ دشت میں امکان روشنی بھی نہیں
مگر یہ ہاتھ اندھیرے میں جلنا چاہتا ہے
ہر ایک شاخ کے ہاتھوں میں پھول مہکیں گے
خزاں کا پیڑ بھی کپڑے بدلنا چاہتا ہے
بہت کٹھن ہے کہ سانسیں بھی بار لگتی ہیں
مرا وجود بھی نقطے میں ڈھلنا چاہتا ہے
غزل
غبار جاں سے ستارا نکلنا چاہتا ہے
جینت پرمار