اب کھل کے کہو بات تو کچھ بات بنے گی
یہ دور اشارات و کنایات نہیں ہے
حفیظ میرٹھی
ابھی سے ہوش اڑے مصلحت پسندوں کے
ابھی میں بزم میں آیا ابھی بولا کہاں بولا
حفیظ میرٹھی
بد تر ہے موت سے بھی غلامی کی زندگی
مر جائیو مگر یہ گوارا نہ کیجیو
حفیظ میرٹھی
ہائے وہ نغمہ جس کا مغنی
گاتا جائے روتا جائے
حفیظ میرٹھی
ہر سہارا بے عمل کے واسطے بیکار ہے
آنکھ ہی کھولے نہ جب کوئی اجالا کیا کرے
حفیظ میرٹھی
اک اجنبی کے ہاتھ میں دے کر ہمارا ہاتھ
لو ساتھ چھوڑنے لگا آخر یہ سال بھی
حفیظ میرٹھی
کبھی کبھی ہمیں دنیا حسین لگتی تھی
کبھی کبھی تری آنکھوں میں پیار دیکھتے تھے
حفیظ میرٹھی
کیا جانے کیا سبب ہے کہ جی چاہتا ہے آج
روتے ہی جائیں سامنے تم کو بٹھا کے ہم
حفیظ میرٹھی
مے خانے کی سمت نہ دیکھو
جانے کون نظر آ جائے
حفیظ میرٹھی