EN हिंदी
حفیظ میرٹھی شیاری | شیح شیری

حفیظ میرٹھی شیر

17 شیر

اب کھل کے کہو بات تو کچھ بات بنے گی
یہ دور اشارات و کنایات نہیں ہے

حفیظ میرٹھی




کیا جانے کیا سبب ہے کہ جی چاہتا ہے آج
روتے ہی جائیں سامنے تم کو بٹھا کے ہم

حفیظ میرٹھی




کبھی کبھی ہمیں دنیا حسین لگتی تھی
کبھی کبھی تری آنکھوں میں پیار دیکھتے تھے

حفیظ میرٹھی




اک اجنبی کے ہاتھ میں دے کر ہمارا ہاتھ
لو ساتھ چھوڑنے لگا آخر یہ سال بھی

حفیظ میرٹھی




ہر سہارا بے عمل کے واسطے بیکار ہے
آنکھ ہی کھولے نہ جب کوئی اجالا کیا کرے

حفیظ میرٹھی




ہائے وہ نغمہ جس کا مغنی
گاتا جائے روتا جائے

حفیظ میرٹھی




بد تر ہے موت سے بھی غلامی کی زندگی
مر جائیو مگر یہ گوارا نہ کیجیو

حفیظ میرٹھی




ابھی سے ہوش اڑے مصلحت پسندوں کے
ابھی میں بزم میں آیا ابھی بولا کہاں بولا

حفیظ میرٹھی