آدمی کا آدمی ہر حال میں ہمدرد ہو
اک توجہ چاہئے انساں کو انساں کی طرف
حفیظ جونپوری
آپ ہی سے نہ جب رہا مطلب
پھر رقیبوں سے مجھ کو کیا مطلب
حفیظ جونپوری
عاشق کی بے کسی کا تو عالم نہ پوچھیے
مجنوں پہ کیا گزر گئی صحرا گواہ ہے
حفیظ جونپوری
اخیر وقت ہے کس منہ سے جاؤں مسجد کو
تمام عمر تو گزری شراب خانے میں
حفیظ جونپوری
بہت دور تو کچھ نہیں گھر مرا
چلے آؤ اک دن ٹہلتے ہوئے
حفیظ جونپوری
بیٹھ جاتا ہوں جہاں چھاؤں گھنی ہوتی ہے
ہائے کیا چیز غریب الوطنی ہوتی ہے
حفیظ جونپوری
بوسۂ رخسار پر تکرار رہنے دیجیے
لیجیے یا دیجیے انکار رہنے دیجیے
حفیظ جونپوری
برا ہی کیا ہے برتنا پرانی رسموں کا
کبھی شراب کا پینا بھی کیا حلال نہ تھا
حفیظ جونپوری
گیا جو ہاتھ سے وہ وقت پھر نہیں آتا
کہاں امید کہ پھر دن پھریں ہمارے اب
حفیظ جونپوری