برا ہی کیا ہے برتنا پرانی رسموں کا
کبھی شراب کا پینا بھی کیا حلال نہ تھا
حفیظ جونپوری
گیا جو ہاتھ سے وہ وقت پھر نہیں آتا
کہاں امید کہ پھر دن پھریں ہمارے اب
حفیظ جونپوری
حال میرا بھی جائے عبرت ہے
اب سفارش رقیب کرتے ہیں
حفیظ جونپوری
آدمی کا آدمی ہر حال میں ہمدرد ہو
اک توجہ چاہئے انساں کو انساں کی طرف
حفیظ جونپوری
حسینوں سے فقط صاحب سلامت دور کی اچھی
نہ ان کی دوستی اچھی نہ ان کی دشمنی اچھی
حفیظ جونپوری
اس کو سمجھو نہ خط نفس حفیظؔ
اور ہی کچھ ہے شاعری سے غرض
حفیظ جونپوری
جب ملا کوئی حسیں جان پر آفت آئی
سو جگہ عہد جوانی میں طبیعت آئی
حفیظ جونپوری
جب نہ تھا ضبط تو کیوں آئے عیادت کے لیے
تم نے کاہے کو مرا حال پریشاں دیکھا
حفیظ جونپوری
جو دیوانوں نے پیمائش کی ہے میدان قیامت کی
فقط دو گز زمیں ٹھہری وہ میرے دشت وحشت کی
حفیظ جونپوری