EN हिंदी
گلنار آفرین شیاری | شیح شیری

گلنار آفرین شیر

13 شیر

بغیر سمت کے چلنا بھی کام آ ہی گیا
فصیل شہر کے باہر بھی ایک دنیا تھی

گلنار آفرین




دل کا ہر زخم تری یاد کا اک پھول بنے
میرے پیراہن جاں سے تری خوشبو آئے

گلنار آفرین




ایک آنسو یاد کا ٹپکا تو دریا بن گیا
زندگی بھر مجھ میں ایک طوفان سا پلتا رہا

گلنار آفرین




ایک پرچھائیں تصور کی مرے ساتھ رہے
میں تجھے بھولوں مگر یاد مجھے تو آئے

گلنار آفرین




گلنارؔ مصلحت کی زباں میں نہ بات کر
وہ زہر پی کے دیکھ جو سچائیوں میں ہے

گلنار آفرین




ہم سر راہ وفا اس کو صدا کیا دیتے
جانے والے نے پلٹ کر ہمیں دیکھا بھی نہ تھا

گلنار آفرین




ہمیں بھی اب در و دیوار گھر کے یاد آئے
جو گھر میں تھے تو ہمیں آرزوئے صحرا تھی

گلنار آفرین




کہیے آئینۂ صد فصل بہاراں تجھ کو
کتنے پھولوں کی مہک ہے ترے پیراہن میں

گلنار آفرین




کن شہیدوں کے لہو کے یہ فروزاں ہیں چراغ
روشنی سی جو ہے زنداں کے ہر اک روزن میں

گلنار آفرین