شاید ابھی کمی سی مسیحائیوں میں ہے
جو درد ہے وہ روح کی گہرائیوں میں ہے
جس کو کبھی خیال کا پیکر نہ مل سکا
وہ عکس میرے ذہن کی رعنائیوں میں ہے
کل تک تو زندگی تھی تماشا بنی ہوئی
اور آج زندگی بھی تماشائیوں میں ہے
ہے کس لیے یہ وسعت دامان التفات
دل کا سکون تو انہی تنہائیوں میں ہے
یہ دشت آرزو ہے یہاں ایک ایک دل
تجھ کو خبر بھی ہے ترے سودائیوں میں ہے
تنہا نہیں ہے اے شب گریاں دئیے کی لو
یادوں کی ایک شام بھی پرچھائیوں میں ہے
گلنارؔ مصلحت کی زباں میں نہ بات کر
وہ زہر پی کے دیکھ جو سچائیوں میں ہے
غزل
شاید ابھی کمی سی مسیحائیوں میں ہے
گلنار آفرین