EN हिंदी
وہ چراغ زیست بن کر راہ میں جلتا رہا | شیح شیری
wo charagh-e-zist ban kar rah mein jalta raha

غزل

وہ چراغ زیست بن کر راہ میں جلتا رہا

گلنار آفرین

;

وہ چراغ زیست بن کر راہ میں جلتا رہا
ہاتھ میں وہ ہاتھ لے کر عمر بھر چلتا رہا

ایک آنسو یاد کا ٹپکا تو دریا بن گیا
زندگی بھر مجھ میں ایک طوفان سا پلتا رہا

جانتی ہوں اب اسے میں پا نہیں سکتی مگر
ہر جگہ سائے کی صورت ساتھ کیوں چلتا رہا

جو میری نظروں سے اوجھل ہو چکا مدت ہوئی
وہ خیالوں میں بسا اور شعر میں ڈھلتا رہا

رنج تھا گلنارؔ مجھ کو اس کو بھی افسوس تھا
دیر تک روتا رہا اور ہاتھ بھی ملتا رہا