EN हिंदी
فریحہ نقوی شیاری | شیح شیری

فریحہ نقوی شیر

17 شیر

عین ممکن ہے اسے مجھ سے محبت ہی نہ ہو
دل بہر طور اسے اپنا بنانا چاہے

فریحہ نقوی




بھلی کیوں لگے ہم کو خوشیوں کی دستک
ابھی ہم محبت کا غم کر رہے ہیں

فریحہ نقوی




دے رہے ہیں لوگ میرے دل پہ دستک بار بار
دل مگر یہ کہہ رہا ہے صرف تو اور صرف تو

فریحہ نقوی




ہم آج قوس قزح کے مانند ایک دوجے پہ کھل رہے ہیں
مجھے تو پہلے سے لگ رہا تھا یہ آسمانوں کا سلسلہ ہے

فریحہ نقوی




ہتھیلی سے ٹھنڈا دھواں اٹھ رہا ہے
یہی خواب ہر مرتبہ دیکھتی ہوں

فریحہ نقوی




کھل کر آخر جہل کا اعلان ہونا چاہئے
حق پرستوں کے لئے زندان ہونا چاہئے

فریحہ نقوی




کس کس پھول کی شادابی کو مسخ کرو گے بولو!!!
یہ تو اس کی دین ہے جس کو چاہے وہ مہکائے

فریحہ نقوی




لڑکھڑانا نہیں مجھے پھر بھی
تم مرا ہاتھ تھام کر رکھنا

فریحہ نقوی




مرے ہجر کے فیصلے سے ڈرو تم
میں خود میں عجب حوصلہ دیکھتی ہوں

فریحہ نقوی