EN हिंदी
وہ اگر اب بھی کوئی عہد نبھانا چاہے | شیح شیری
wo agar ab bhi koi ahd nibhana chahe

غزل

وہ اگر اب بھی کوئی عہد نبھانا چاہے

فریحہ نقوی

;

وہ اگر اب بھی کوئی عہد نبھانا چاہے
دل کا دروازہ کھلا ہے جو وہ آنا چاہے

عین ممکن ہے اسے مجھ سے محبت ہی نہ ہو
دل بہر طور اسے اپنا بنانا چاہے

دن گزر جاتے ہیں قربت کے نئے رنگوں سے
رات پر رات ہے وہ خواب پرانا چاہے

اک نظر دیکھ مجھے!! میری عبادت کو دیکھ!!
بھول پائے گا اگر مجھ کو بھلانا چاہے

وہ خدا ہے تو بھلا اس سے شکایت کیسی؟
مقتدر ہے وہ ستم مجھ پہ جو ڈھانا چاہے

خون امڈ آیا عبارت میں، ورق چیخ اٹھے
میں نے وحشت میں ترے خط جو جلانا چاہے

نوچ ڈالوں گی اسے اب کے یہی سوچا ہے
گر مری آنکھ کوئی خواب سجانا چاہے