EN हिंदी
اسے بھولنے کا ستم کر رہے ہیں | شیح شیری
use bhulne ka sitam kar rahe hain

غزل

اسے بھولنے کا ستم کر رہے ہیں

فریحہ نقوی

;

اسے بھولنے کا ستم کر رہے ہیں
ہم اپنی اذیت کو کم کر رہے ہیں

ہماری نگاہوں سے سپنے چرا کر
وہ کس کی نگاہوں میں ضم کر رہے ہیں

حیات رواں کی ہر اک نا روائی
ہم اپنے لہو سے رقم کر رہے ہیں

بھلی کیوں لگے ہم کو خوشیوں کی دستک
ابھی ہم محبت کا غم کر رہے ہیں

کسے دکھ سنائیں سبھی تو یہاں پر
شمار اپنے اپنے الم کر رہے ہیں

سخن کو سیاست کا زینہ دکھا کر
تماشہ یہ اہل قلم کر رہے ہیں