اسے بھولنے کا ستم کر رہے ہیں
ہم اپنی اذیت کو کم کر رہے ہیں
ہماری نگاہوں سے سپنے چرا کر
وہ کس کی نگاہوں میں ضم کر رہے ہیں
حیات رواں کی ہر اک نا روائی
ہم اپنے لہو سے رقم کر رہے ہیں
بھلی کیوں لگے ہم کو خوشیوں کی دستک
ابھی ہم محبت کا غم کر رہے ہیں
کسے دکھ سنائیں سبھی تو یہاں پر
شمار اپنے اپنے الم کر رہے ہیں
سخن کو سیاست کا زینہ دکھا کر
تماشہ یہ اہل قلم کر رہے ہیں
غزل
اسے بھولنے کا ستم کر رہے ہیں
فریحہ نقوی