EN हिंदी
بیتے خواب کی عادی آنکھیں کون انہیں سمجھائے | شیح شیری
bite KHwab ki aadi aankhen kaun unhen samjhae

غزل

بیتے خواب کی عادی آنکھیں کون انہیں سمجھائے

فریحہ نقوی

;

بیتے خواب کی عادی آنکھیں کون انہیں سمجھائے
ہر آہٹ پر دل یوں دھڑکے جیسے تم ہو آئے

ضد میں آ کر چھوڑ رہی ہے ان بانہوں کے سائے
جل جائے گی موم کی گڑیا دنیا دھوپ سرائے

شام ہوئی تو گھر کی ہر اک شے پر آ کر جھپٹے
آنگن کی دہلیز پہ بیٹھے ویرانی کے سائے

ہر اک دھڑکن درد کی گہری ٹیس میں ڈھل جاتی ہے
رات گئے جب یاد کا پنچھی اپنے پر پھیلائے

اندر ایسا حبس تھا میں نے کھول دیا دروازہ
جس نے دل سے جانا ہے وہ خاموشی سے جائے

کس کس پھول کی شادابی کو مسخ کرو گے بولو!!!
یہ تو اس کی دین ہے جس کو چاہے وہ مہکائے