عین ممکن ہے اسے مجھ سے محبت ہی نہ ہو
دل بہر طور اسے اپنا بنانا چاہے
فریحہ نقوی
لڑکھڑانا نہیں مجھے پھر بھی
تم مرا ہاتھ تھام کر رکھنا
فریحہ نقوی
کس کس پھول کی شادابی کو مسخ کرو گے بولو!!!
یہ تو اس کی دین ہے جس کو چاہے وہ مہکائے
فریحہ نقوی
کھل کر آخر جہل کا اعلان ہونا چاہئے
حق پرستوں کے لئے زندان ہونا چاہئے
فریحہ نقوی
ہتھیلی سے ٹھنڈا دھواں اٹھ رہا ہے
یہی خواب ہر مرتبہ دیکھتی ہوں
فریحہ نقوی
ہم آج قوس قزح کے مانند ایک دوجے پہ کھل رہے ہیں
مجھے تو پہلے سے لگ رہا تھا یہ آسمانوں کا سلسلہ ہے
فریحہ نقوی
دے رہے ہیں لوگ میرے دل پہ دستک بار بار
دل مگر یہ کہہ رہا ہے صرف تو اور صرف تو
فریحہ نقوی
بھلی کیوں لگے ہم کو خوشیوں کی دستک
ابھی ہم محبت کا غم کر رہے ہیں
فریحہ نقوی