EN हिंदी
اعجاز رحمانی شیاری | شیح شیری

اعجاز رحمانی شیر

6 شیر

ابھی سے پاؤں کے چھالے نہ دیکھو
ابھی یارو سفر کی ابتدا ہے

اعجاز رحمانی




فطرت کے تقاضے کبھی بدلے نہیں جاتے
خوشبو ہے اگر وہ تو بکھرنا ہی پڑے گا

اعجاز رحمانی




گزر رہا ہوں میں سودا گروں کی بستی سے
بدن پہ دیکھیے کب تک لباس رہتا ہے

اعجاز رحمانی




جہاں پہ ڈوب گیا میری آس کا سورج
اسی جگہ وہ ستارہ شناس رہتا ہے

اعجاز رحمانی




تالاب تو برسات میں ہو جاتے ہیں کم ظرف
باہر کبھی آپے سے سمندر نہیں ہوتا

اعجاز رحمانی




وہ ایک پل کی رفاقت بھی کیا رفاقت تھی
جو دے گئی ہے مجھے عمر بھر کی تنہائی

اعجاز رحمانی