EN हिंदी
اب کرب کے طوفاں سے گزرنا ہی پڑے گا | شیح شیری
ab karb ke tufan se guzarna hi paDega

غزل

اب کرب کے طوفاں سے گزرنا ہی پڑے گا

اعجاز رحمانی

;

اب کرب کے طوفاں سے گزرنا ہی پڑے گا
سورج کو سمندر میں اترنا ہی پڑے گا

فطرت کے تقاضے کبھی بدلے نہیں جاتے
خوشبو ہے اگر وہ تو بکھرنا ہی پڑے گا

پڑتی ہے تو پڑ جائے شکن اس کی جبیں پر
سچائی کا اظہار تو کرنا ہی پڑے گا

ہر شخص کو آئیں گے نظر رنگ سحر کے
خورشید کی کرنوں کو بکھرنا ہی پڑے گا

میں سوچ رہا ہوں یہ سر شہر نگاراں
یہ اس کی گلی ہے تو ٹھہرنا ہی پڑے گا

اب شانۂ تدبیر ہے ہاتھوں میں ہمارے
حالات کی زلفوں کو سنورنا ہی پڑے گا

اک عمر سے بے نور ہے یہ محفل ہستی
اعجازؔ کوئی رنگ تو بھرنا ہی پڑے گا