ہنسی لبوں پہ سجائے اداس رہتا ہے
یہ کون ہے جو مرے گھر کے پاس رہتا ہے
یہ اور بات کہ ملتا نہیں کوئی اس سے
مگر وہ شخص سراپا سپاس رہتا ہے
جہاں پہ ڈوب گیا میری آس کا سورج
اسی جگہ وہ ستارہ شناس رہتا ہے
گزر رہا ہوں میں سودا گروں کی بستی سے
بدن پہ دیکھیے کب تک لباس رہتا ہے
لکھی ہے کس نے یہ تحریر ریگ ساحل پر
بہت دنوں سے سمندر اداس رہتا ہے
میں وحشتوں کے سفر میں بھی ہوں کہاں تنہا
یہی گماں ہے کوئی آس پاس رہتا ہے
میں گفتگو کے ہر انداز کو سمجھتا ہوں
کہ میری ذات میں لہجہ شناس رہتا ہے
وہ فاصلوں میں بھی رکھتا ہے رنگ قربت کے
نظر سے دور سہی دل کے پاس رہتا ہے
جب ان سے گفتگو کرتا ہے کوئی بھی اعجازؔ
اک التماس پس التماس رہتا ہے
غزل
ہنسی لبوں پہ سجائے اداس رہتا ہے
اعجاز رحمانی