EN हिंदी
احتشام حسین شیاری | شیح شیری

احتشام حسین شیر

8 شیر

بجھیں شمعیں تو دل جلائے ہیں
یوں اندھیروں میں روشنی کی ہے

احتشام حسین




دل نے چپکے سے کہا کوشش ناکام کے بعد
زہر ہی درد محبت کی دوا ہو جیسے

احتشام حسین




میں سمجھتا ہوں مجھے دولت کونین ملی
کون کہتا ہے کہ وہ کر گئے بدنام مجھے

احتشام حسین




منزل نہ ملی تو غم نہیں ہے
اپنے کو تو کھو کے پا گیا ہوں

احتشام حسین




نہ جانے ہار ہے یا جیت کیا ہے
غموں پر مسکرانا آ گیا ہے

احتشام حسین




تیرا ہی ہو کے جو رہ جاؤں تو پھر کیا ہوگا
اے جنوں اور ہیں دنیا میں بہت کام مجھے

احتشام حسین




وادئ شب میں اجالوں کا گزر ہو کیسے
دل جلائے رہو پیغام سحر آنے تک

احتشام حسین




یوں گزرتا ہے تری یاد کی وادی میں خیال
خارزاروں میں کوئی برہنہ پا ہو جیسے

احتشام حسین