EN हिंदी
ان آنکھوں کو نظر کیا آ گیا ہے | شیح شیری
un aankhon ko nazar kya aa gaya hai

غزل

ان آنکھوں کو نظر کیا آ گیا ہے

احتشام حسین

;

ان آنکھوں کو نظر کیا آ گیا ہے
مزاج آرزو بدلا ہوا ہے

نہ جانے ہار ہے یا جیت کیا ہے
غموں پر مسکرانا آ گیا ہے

مری حالت پہ ان کا مسکرانا
جواب نا مرادی آ گیا ہے

نہیں اک میں ہی ناکام محبت
یہی پہلے بھی اکثر ہو چکا ہے

صبا کی رو نہ غنچوں کا تبسم
چمن والو کہو کیا ہو گیا ہے

شب غم سہمی سہمی یاد ان کی
اندھیرے میں دیا سا جل رہا ہے

نہیں ملتا سراغ منزل شوق
محبت سے بھی جی گھبرا گیا ہے