عقل پہنچی جو روایات کے کاشانے تک
ایک ہی رسم ملی کعبہ سے بت خانے تک
وادئ شب میں اجالوں کا گزر ہو کیسے
دل جلائے رہو پیغام سحر آنے تک
یہ بھی دیکھا ہے کہ ساقی سے ملا جام مگر
ہونٹ ترسے ہوئے پہنچے نہیں پیمانے تک
ریگزاروں میں کہیں پھول کھلا کرتے ہیں
روشنی کھو گئی آ کر مرے ویرانے تک
ہم نشیں کٹ ہی گیا دور خزاں بھی آخر
ذکر پھولوں کا رہا فصل بہار آنے تک
ساری الجھن ہے سکوں کے لیے اے شوق ٹھہر
غم کا طوفان بلا خیز گزر جانے تک
ذہن مایوس کرم شوق نظارہ سرشار
ہوش میں کیسے رہوں ان کا پیام آنے تک
زخم یادوں کے مہکتے ہیں کہ آئی ہے بہار
ہے یہ دولت غم دوراں کی خزاں آنے تک
بے نیازی ہے تغافل ہے کہ بے زاری ہے
بات اتنی تو سمجھ لیتے ہیں دیوانے تک
زندگی غم سے الجھتی ہی رہے گی ہمدم
وقت کی زلف گرہ گیر سلجھ جانے تک
منزل راہ طلب تھی تو کہیں اور مگر
رک گئے خود ہی قدم پہنچے جو مے خانے تک
غزل
عقل پہنچی جو روایات کے کاشانے تک
احتشام حسین