دیکھ کر جادۂ ہستی پہ سبک گام مجھے
دور سے تکتی رہی گردش ایام مجھے
ڈال کر ایک نظر پیار کی میری جانب
دوست نے کر ہی لیا بندۂ بے دام مجھے
کل سنیں گے وہی مژدہ مری آزادی کا
آج جو دیکھ کے ہنستے ہیں تہہ دام مجھے
دیکھ لیتا ہوں اندھیرے میں اجالے کی کرن
ظلمت شب نے دیا صبح کا پیغام مجھے
نہ تو جینے ہی میں لذت ہے نہ مرنے کی امنگ
ان نگاہوں نے دیا کون سا پیغام مجھے
میں سمجھتا ہوں مجھے دولت کونین ملی
کون کہتا ہے کہ وہ کر گئے بدنام مجھے
گرچہ آغاز محبت نے دئے ہیں دھوکے
لیے جاتی ہے کہیں کاوش انجام مجھے
تیرا ہی ہو کے جو رہ جاؤں تو پھر کیا ہوگا
اے جنوں اور ہیں دنیا میں بہت کام مجھے
غزل
دیکھ کر جادۂ ہستی پہ سبک گام مجھے
احتشام حسین