عارفؔ حسین دھوکا سہی اپنی زندگی
اس زندگی کے بعد کی حالت بھی ہے فریب
عارف شفیق
اندھے عدم وجود کے گرداب سے نکل
یہ زندگی بھی خواب ہے تو خواب سے نکل
عارف شفیق
اپنے دروازے پہ خود ہی دستکیں دیتا ہے وہ
اجنبی لہجے میں پھر وہ پوچھتا ہے کون ہے
عارف شفیق
غریب شہر تو فاقے سے مر گیا عارفؔ
امیر شہر نے ہیرے سے خودکشی کر لی
عارف شفیق
جو میرے گاؤں کے کھیتوں میں بھوک اگنے لگی
مرے کسانوں نے شہروں میں نوکری کر لی
عارف شفیق
کیسا ماتم کیسا رونا مٹی کا
ٹوٹ گیا ہے ایک کھلونا مٹی کا
عارف شفیق
مجھ کو ویسا خدا ملا بالکل
میں نے عارفؔ کیا گماں جیسا
عارف شفیق
تجھے میں زندگی اپنی سمجھ رہا تھا مگر
ترے بغیر بسر میں نے زندگی کر لی
عارف شفیق