دوزخ بھی کیا گمان ہے جنت بھی ہے فریب
ان وسوسوں میں میری عبادت بھی ہے فریب
دریا و دشت اور سمندر بھی ہیں سراب
دن کا اجالا رات کی ظلمت بھی ہے فریب
تیرا ہر اک خیال بھی اک خوشنما گمان
دنیا ہی کیا خود اپنی حقیقت بھی ہے فریب
پرچھائیں کے سوا تو نہیں ہیں ہم اور کچھ
یہ رنگ و نور اور یہ نکہت بھی ہے فریب
روز ازل کا لمحۂ موجود بھی ہے عکس
یعنی گزرتے وقت کی ساعت بھی ہے فریب
وہم و گماں کے سائے ہیں سورج بھی چاند بھی
اندھی ہے سوچ اور بصارت بھی ہے فریب
ہے یہ نگار خانہ جو خواب و خیال سا
اس آئینے میں میری یہ صورت بھی ہے فریب
عارفؔ حسین دھوکا سہی اپنی زندگی
اس زندگی کے بعد کی حالت بھی ہے فریب
غزل
دوزخ بھی کیا گمان ہے جنت بھی ہے فریب
عارف شفیق