EN हिंदी
اندھے عدم وجود کے گرداب سے نکل | شیح شیری
andhe adam wajud ke girdab se nikal

غزل

اندھے عدم وجود کے گرداب سے نکل

عارف شفیق

;

اندھے عدم وجود کے گرداب سے نکل
یہ زندگی بھی خواب ہے تو خواب سے نکل

سورج سے اپنے بچھڑی ہوئی اک کرن ہے تو
تیرا نصیب جسم کے برفاب سے نکل

تو مٹی پانی آگ ہوا میں ہے قید کیوں
ہونے کا دے جواز تب و تاب سے نکل

پھولوں میں چاند تاروں میں سورج میں اس کو دیکھ
ان پتھروں کے منبر و محراب سے نکل

مرجھا نہ جائے دیکھ کہیں روح کا گلاب
فانی جہاں کی وادئ شاداب سے نکل

بن کے جزیرہ ابھرے گا کردار خود ترا
خوش رنگ خواہشوں کے تو سیلاب سے نکل

کہتی ہیں مجھ سے سوچ سمندر کی وسعتیں
عارفؔ تو اپنی ذات کے تالاب سے نکل