اندھے عدم وجود کے گرداب سے نکل
یہ زندگی بھی خواب ہے تو خواب سے نکل
سورج سے اپنے بچھڑی ہوئی اک کرن ہے تو
تیرا نصیب جسم کے برفاب سے نکل
تو مٹی پانی آگ ہوا میں ہے قید کیوں
ہونے کا دے جواز تب و تاب سے نکل
پھولوں میں چاند تاروں میں سورج میں اس کو دیکھ
ان پتھروں کے منبر و محراب سے نکل
مرجھا نہ جائے دیکھ کہیں روح کا گلاب
فانی جہاں کی وادئ شاداب سے نکل
بن کے جزیرہ ابھرے گا کردار خود ترا
خوش رنگ خواہشوں کے تو سیلاب سے نکل
کہتی ہیں مجھ سے سوچ سمندر کی وسعتیں
عارفؔ تو اپنی ذات کے تالاب سے نکل
غزل
اندھے عدم وجود کے گرداب سے نکل
عارف شفیق