EN हिंदी
انور صدیقی شیاری | شیح شیری

انور صدیقی شیر

5 شیر

بکھر کے ٹوٹ گئے ہم بکھرتی دنیا میں
خود آفرینی کا سودا ہمارے سر میں تھا

انور صدیقی




ڈبوئے دیتا ہے خود آگہی کا بار مجھے
میں ڈھلتا نشہ ہوں موج طرب ابھار مجھے

انور صدیقی




کتنے سبک دل ہوئے تجھ سے بچھڑنے کے بعد
ان سے بھی ملنا پڑا جن سے محبت نہ تھی

انور صدیقی




ساری شفق سمیٹ کے سورج چلا گیا
اب کیا رہا ہے موج شب تار کے سوا

انور صدیقی




اجالتی نہیں اب مجھ کو کوئی تاریکی
سنوارتا نہیں اب کوئی حادثہ مجھ کو

انور صدیقی