ڈبوئے دیتا ہے خود آگہی کا بار مجھے
میں ڈھلتا نشہ ہوں موج طرب ابھار مجھے
اے روح عصر میں تیرا ہوں تیرا حصہ ہوں
خود اپنا خواب سمجھ کر ذرا سنوار مجھے
بکھر کے سب میں عبث انتظار ہے اپنا
جلا کے خاک کر اے شمع انتظار مجھے
صدائے رفتہ سہی لوٹ کر میں آؤں گا
فراز خواب سے اے زندگی پکار مجھے
عذاب یہ ہے کہ مجھے جیسے پھول اور بھی ہیں
صلیب شاخ سے دست خزاں اتار مجھے
غریب شہر نوا ہی سہی مگر یارو
بہت ہے اپنی ہی آواز کا دیار مجھے
غزل
ڈبوئے دیتا ہے خود آگہی کا بار مجھے
انور صدیقی