عذاب ہم سفری سے گریز تھا مجھ کو
پکارتا رہا اک ایک قافلا مجھ کو
میں اپنی لوٹتی آواز کے حصار میں تھا
وہ لمحہ جب تری آواز نے چھوا مجھ کو
یہ کس نے چھین لیے مجھ سے خوشبوؤں کے مکاں
یہ کون دشت کی دیوار کر گیا مجھ کو
اجالتی نہیں اب مجھ کو کوئی تاریکی
سنوارتا نہیں اب کوئی حادثہ مجھ کو
بجھا بجھا سر محراب دور بیٹھا تھا
کوئی چراغ سمجھ کر جلا گیا مجھ کو
میں کیسے اپنے بکھرنے کا تجھ کو دوں الزام
زمانا خود ہی بکھرتا ہوا ملا مجھ کو
غزل
عذاب ہم سفری سے گریز تھا مجھ کو
انور صدیقی