میری نظر کے لیے کوئی روایت نہ تھی
سب کی طرح دیکھنا جبر تھا عادت نہ تھی
ایسا لگا جیسے میں منظر مانوس تھا
اس کی نگاہوں میں کل شوخیٔ حیرت نہ تھی
میرے شب و روز تھے میری صدی کی طرح
کون سا لمحہ تھا وہ جس میں قیامت نہ تھی
پیرہن جسم و جاں زخم ستم تھا تمام
کیسا ستم گر تھا وہ کوئی جراحت نہ تھی
کب کسی دیوار سے سیل تمنا رکا
گرم لہو کی کبھی کوئی شریعت نہ تھی
کتنے سبک دل ہوئے تجھ سے بچھڑنے کے بعد
ان سے بھی ملنا پڑا جن سے محبت نہ تھی
غزل
میری نظر کے لیے کوئی روایت نہ تھی
انور صدیقی