دھاوا بولے گا بہت جلد خزاں کا لشکر
شاخ کو نیزہ کروں پھول کو تلوار کروں
آلوک یادو
دل کشی تھی انسیت تھی یا محبت یا جنون
سب مراحل تجھ سے جو منسوب تھے اچھے لگے
آلوک یادو
ایک عمر سے تجھے میں بے عذر پی رہا ہوں
تو بھی تو پیاس میری اے جام پی لیا کر
آلوک یادو
حد امکان سے آگے میں جانا چاہتا ہوں پر
ابھی ایمان آدھا ہے ابھی لغزش ادھوری ہے
آلوک یادو
حسن کی دل کشی پہ ناز نہ کر
آئنے بد نظر بھی ہوتے ہیں
آلوک یادو
مرے لیے ہیں مصیبت یہ آئنہ خانے
یہاں ضمیر مرا بے نقاب رہتا ہے
آلوک یادو
مجھ کو جنت کے نظارے بھی نہیں جچتے ہیں
شہر جاناں ہی تصور میں بسا ہے صاحب
آلوک یادو
نئی نسلوں کے ہاتھوں میں بھی تابندہ رہے گا
میں مل جاؤں گا مٹی میں قلم زندہ رہے گا
آلوک یادو
پیار کا دونوں پہ آخر جرم ثابت ہو گیا
یہ فرشتے آج جنت سے نکالے جائیں گے
آلوک یادو