انجمن میں جو مری اتنی ضیا ہے صاحب
خون دل میرے چراغوں کی غذا ہے صاحب
بت شکن نکلا وہی سمجھا تھا جس کو بت گر
جس میں رہتا تھا وہی توڑ گیا ہے صاحب
آنکھ سے آنسو چرا لے گیا لیکن وہ شخص
بے گہر سیپ یہیں چھوڑ گیا ہے صاحب
مجھ کو جنت کے نظارے بھی نہیں جچتے ہیں
شہر جاناں ہی تصور میں بسا ہے صاحب
ریگزاروں کے سفر پہ جو چلے ہو آلوکؔ
کوئی آنکھوں میں لیے اشک کھڑا ہے صاحب

غزل
انجمن میں جو مری اتنی ضیا ہے صاحب
آلوک یادو