EN हिंदी
علیم صبا نویدی شیاری | شیح شیری

علیم صبا نویدی شیر

3 شیر

گھر جل رہا تھا سب کے لبوں پر دھواں سا تھا
کس کس پہ کیا ہوا تھا غضب بولنے نہ پائے

علیم صبا نویدی




لہو کی سوکھی ہوئی جھیل میں اتر کر یوں
تلاش کس کو وہ کرتا رہا مرے اندر

علیم صبا نویدی




میں پھر رہا ہوں شہر میں سڑکوں پہ غالباً
آواز دے کے مجھ کو مرا گھر پکار لے

علیم صبا نویدی