عجیب الجھن میں تو نے ڈالا مجھے بھی اے گردش زمانہ
سکون ملتا نہیں قفس میں نہ راس آتا ہے آشیانہ
اختر مسلمی
اشک وہ ہے جو رہے آنکھ میں گوہر بن کر
اور ٹوٹے تو بکھر جائے نگینوں کی طرح
اختر مسلمی
دیہات کے بسنے والے تو اخلاص کے پیکر ہوتے ہیں
اے کاش نئی تہذیب کی رو شہروں سے نہ آتی گاؤں میں
اختر مسلمی
دی اس نے مجھ کو جرم محبت کی وہ سزا
کچھ بے قصور لوگ سزا مانگنے لگے
اختر مسلمی
ایک ہی انجام ہے اے دوست حسن و عشق کا
شمع بھی بجھتی ہے پروانوں کے جل جانے کے بعد
اختر مسلمی
فریب خوردہ ہے اتنا کہ میرے دل کو ابھی
تم آ چکے ہو مگر انتظار باقی ہے
اختر مسلمی
ہاں یہ بھی طریقہ اچھا ہے تم خواب میں ملتے ہو مجھ سے
آتے بھی نہیں غم خانے تک وعدہ بھی وفا ہو جاتا ہے
اختر مسلمی
ہر شاخ چمن ہے افسردہ ہر پھول کا چہرہ پژمردہ
آغاز ہی جب ایسا ہے تو پھر انجام بہاراں کیا ہوگا
اختر مسلمی
انصاف کے پردے میں یہ کیا ظلم ہے یارو
دیتے ہو سزا اور خطا اور ہی کچھ ہے
اختر مسلمی