EN हिंदी
اختر مسلمی شیاری | شیح شیری

اختر مسلمی شیر

24 شیر

ہاں یہ بھی طریقہ اچھا ہے تم خواب میں ملتے ہو مجھ سے
آتے بھی نہیں غم خانے تک وعدہ بھی وفا ہو جاتا ہے

اختر مسلمی




فریب خوردہ ہے اتنا کہ میرے دل کو ابھی
تم آ چکے ہو مگر انتظار باقی ہے

اختر مسلمی




ایک ہی انجام ہے اے دوست حسن و عشق کا
شمع بھی بجھتی ہے پروانوں کے جل جانے کے بعد

اختر مسلمی




دی اس نے مجھ کو جرم محبت کی وہ سزا
کچھ بے قصور لوگ سزا مانگنے لگے

اختر مسلمی




دیہات کے بسنے والے تو اخلاص کے پیکر ہوتے ہیں
اے کاش نئی تہذیب کی رو شہروں سے نہ آتی گاؤں میں

اختر مسلمی




اشک وہ ہے جو رہے آنکھ میں گوہر بن کر
اور ٹوٹے تو بکھر جائے نگینوں کی طرح

اختر مسلمی