EN हिंदी
اختر مسلمی شیاری | شیح شیری

اختر مسلمی شیر

24 شیر

جو با خبر تھے وہ دیتے رہے فریب مجھے
ترا پتہ جو ملا ایک بے خبر سے ملا

اختر مسلمی




عجیب الجھن میں تو نے ڈالا مجھے بھی اے گردش زمانہ
سکون ملتا نہیں قفس میں نہ راس آتا ہے آشیانہ

اختر مسلمی




انصاف کے پردے میں یہ کیا ظلم ہے یارو
دیتے ہو سزا اور خطا اور ہی کچھ ہے

اختر مسلمی




ہر شاخ چمن ہے افسردہ ہر پھول کا چہرہ پژمردہ
آغاز ہی جب ایسا ہے تو پھر انجام بہاراں کیا ہوگا

اختر مسلمی




ہاں یہ بھی طریقہ اچھا ہے تم خواب میں ملتے ہو مجھ سے
آتے بھی نہیں غم خانے تک وعدہ بھی وفا ہو جاتا ہے

اختر مسلمی




فریب خوردہ ہے اتنا کہ میرے دل کو ابھی
تم آ چکے ہو مگر انتظار باقی ہے

اختر مسلمی




ایک ہی انجام ہے اے دوست حسن و عشق کا
شمع بھی بجھتی ہے پروانوں کے جل جانے کے بعد

اختر مسلمی




دی اس نے مجھ کو جرم محبت کی وہ سزا
کچھ بے قصور لوگ سزا مانگنے لگے

اختر مسلمی




دیہات کے بسنے والے تو اخلاص کے پیکر ہوتے ہیں
اے کاش نئی تہذیب کی رو شہروں سے نہ آتی گاؤں میں

اختر مسلمی