ابھی ہمیں گزارنی ہے ایک عمر مختصر
مگر ہماری عمر مختصر میں کتنی دیر ہے
احمد شہریار
فقیر شہر بھی رہا ہوں شہریارؔ بھی مگر
جو اطمینان فقر میں ہے تاج و تخت میں نہیں
احمد شہریار
حد گماں سے ایک شخص دور کہیں چلا گیا
میں بھی وہیں چلا گیا میں بھی گزشتگاں میں تھا
احمد شہریار
ہمارے شہر کی روایتوں میں ایک یہ بھی تھا
دعا سے قبل پوچھنا اثر میں کتنی دیر ہے
احمد شہریار
علم کا دم بھرنا چھوڑو بھی اور عمل کو بھول بھی جاؤ
آئینہ خانے میں ہو صاحب فکر کرو حیرانی کی
احمد شہریار
جل اٹھیں یادوں کی قندیلیں صدائیں ڈوب جائیں
درحقیقت خامشی صحرا بھی ہے دریا بھی ہے
احمد شہریار
خواب زیاں ہیں عمر کا خواب ہیں حاصل حیات
اس کا بھی تھا یقیں مجھے وہ بھی مرے گماں میں تھا
احمد شہریار
لمس صدائے ساز نے زخم نہال کر دیے
یہ تو وہی ہنر ہے جو دست طبیب جاں میں تھا
احمد شہریار
نہ دستکیں نہ صدا کون در پہ آیا ہے
فقیر شہر ہے یا شہریار دیکھئے گا
احمد شہریار