دنیا سے ہر رشتہ توڑا خود سے رو گردانی کی
صرف تمہارا دھیان رکھا اور جینے میں آسانی کی
مجنوں اور فرہاد ہوئے جب عشق میں سب برباد ہوئے
تب جنگل نے کوچ کیا صحرا نے نقل مکانی کی
اس کی موہنی صورت جیسے پھولوں کا آمیزہ ہے
اور اس کی آواز ہے گویا رے گا ما پا دھانی کی
بھولی بسری یاد نے جب دریافت کیا احوال مرا
دل نے زخم کلام کیا آنکھوں نے اشک بیانی کی
علم کا دم بھرنا چھوڑو بھی اور عمل کو بھول بھی جاؤ
آئینہ خانے میں ہو صاحب فکر کرو حیرانی کی
غزل
دنیا سے ہر رشتہ توڑا خود سے رو گردانی کی
احمد شہریار