اب اس کے تصور سے بھی جھکنے لگیں آنکھیں
نذرانہ دیا ہے جسے میں نے دل و جاں کا
احمد راہی
اب نہ کعبہ کی تمنا نہ کسی بت کی ہوس
اب تو زندہ ہوں کسی مرکز انساں کے لیے
احمد راہی
درد کی بات کسی ہنستی ہوئی محفل میں
جیسے کہہ دے کسی تربت پہ لطیفہ کوئی
احمد راہی
دل کے سنسان جزیروں کی خبر لائے گا
درد پہلو سے جدا ہو کے کہاں جائے گا
احمد راہی
دل سے دل نظروں سے نظروں کے الجھنے کا سماں
جیسے صحراؤں میں نیند آئی ہو دیوانوں کو
احمد راہی
دور تیری محفل سے رات دن سلگتا ہوں
تو مری تمنا ہے میں ترا تماشا ہوں
احمد راہی
ہر ایک بات کے یوں تو دیے جواب اس نے
جو خاص بات تھی ہر بار ہنس کے ٹال گیا
احمد راہی
جس طرف جائیں جہاں جائیں بھری دنیا میں
راستہ روکے تری یاد کھڑی ہوتی ہے
احمد راہی
کہیں یہ اپنی محبت کی انتہا تو نہیں
بہت دنوں سے تری یاد بھی نہیں آئی
احمد راہی