دل کے سنسان جزیروں کی خبر لائے گا
درد پہلو سے جدا ہو کے کہاں جائے گا
کون ہوتا ہے کسی کا شب تنہائی میں
غم فرقت ہی غم عشق کو بہلائے گا
چاند کے پہلو میں دم سادھ کے روتی ہے کرن
آج تاروں کا فسوں خاک نظر آئے گا
راگ میں آگ دبی ہے غم محرومی کی
راکھ ہوکر بھی یہ شعلہ ہمیں سلگائے گا
وقت خاموش ہے روٹھے ہوئے یاروں کی طرح
کون لو دیتے ہوئے زخموں کو سہلائے گا
زندگی چل کہ ذرا موت کے دم خم دیکھیں
ورنہ یہ جذبہ لحد تک ہمیں لے جائے گا
غزل
دل کے سنسان جزیروں کی خبر لائے گا
احمد راہی