EN हिंदी
تمنا شیاری | شیح شیری

تمنا

29 شیر

آغاز محبت کا انجام بس اتنا ہے
جب دل میں تمنا تھی اب دل ہی تمنا ہے

جگر مراد آبادی




مری ہستی ہے مری طرز تمنا اے دوست
خود میں فریاد ہوں میری کوئی فریاد نہیں

جگر مراد آبادی




عشق ہے جی کا زیاں عشق میں رکھا کیا ہے
دل برباد بتا تیری تمنا کیا ہے

جنید حزیں لاری




انساں کی خواہشوں کی کوئی انتہا نہیں
دو گز زمیں بھی چاہیئے دو گز کفن کے بعد

کیفی اعظمی




ہم نہ مانیں گے خموشی ہے تمنا کا مزاج
ہاں بھری بزم میں وہ بول نہ پائی ہوگی

کالی داس گپتا رضا




تمنا تری ہے اگر ہے تمنا
تری آرزو ہے اگر آرزو ہے

خواجہ میر دردؔ




ارمان وصل کا مری نظروں سے تاڑ کے
پہلے ہی سے وہ بیٹھ گئے منہ بگاڑ کے

لالہ مادھو رام جوہر