EN हिंदी
صحابہ شیاری | شیح شیری

صحابہ

11 شیر

ساحل پہ لوگ یوں ہی کھڑے دیکھتے رہے
دریا میں ہم جو اترے تو دریا اتر گیا

عبد اللہ جاوید




دھارے سے کبھی کشتی نہ ہٹی اور سیدھی گھاٹ پر آ پہنچی
سب بہتے ہوئے دریاؤں کے کیا دو ہی کنارے ہوتے ہیں

آرزو لکھنوی




آتا ہے جو طوفاں آنے دے کشتی کا خدا خود حافظ ہے
ممکن ہے کہ اٹھتی لہروں میں بہتا ہوا ساحل آ جائے

this vessel is by God sustained let the mighty storms appear,

بہزاد لکھنوی


ٹیگز: | صحابہ | | کاشٹی | | خدا |


اگر موجیں ڈبو دیتیں تو کچھ تسکین ہو جاتی
کناروں نے ڈبویا ہے مجھے اس بات کا غم ہے

دواکر راہی




میں جس رفتار سے طوفاں کی جانب بڑھتا جاتا ہوں
اسی رفتار سے نزدیک ساحل ہوتا جاتا ہے

احسان دانش




سفر میں کوئی کسی کے لیے ٹھہرتا نہیں
نہ مڑ کے دیکھا کبھی ساحلوں کو دریا نے

فارغ بخاری




اس نا خدا کے ظلم و ستم ہائے کیا کروں
کشتی مری ڈبوئی ہے ساحل کے آس پاس

حسرتؔ موہانی