حواس لوٹ لیے شورش تمنا نے
ہری رتوں کے لیے بن گئے ہیں دیوانے
بدلتے دیر نہیں لگتی اب حقیقت کو
جو کل کی باتیں ہیں وہ آج کے ہیں افسانے
ہے اب تو قطع تعلق کی ایک ہی صورت
خدا کرے تو ہمیں دیکھ کر نہ پہچانے
جو تیرے کوچے سے نکلے تو اک تماشہ تھے
عجیب نظروں سے دیکھا ہے ہم کو دنیا نے
سفر میں کوئی کسی کے لیے ٹھہرتا نہیں
نہ مڑ کے دیکھا کبھی ساحلوں کو دریا نے
خزاں نے دست بصارت کو ڈس لیا فارغؔ
چلے تھے قافلۂ فصل گل کو ٹھہرانے
غزل
حواس لوٹ لیے شورش تمنا نے
فارغ بخاری