EN हिंदी
فون شیاری | شیح شیری

فون

18 شیر

اگرچہ پھول یہ اپنے لیے خریدے ہیں
کوئی جو پوچھے تو کہہ دوں گا اس نے بھیجے ہیں

افتخار نسیم




کانٹوں پہ چلے ہیں تو کہیں پھول کھلے ہیں
پھولوں سے ملے ہیں تو بڑی چوٹ لگی ہے

جاوید وششٹ




بہار آئی گلوں کو ہنسی نہیں آئی
کہیں سے بو تری گفتار کی نہیں آئی

کالی داس گپتا رضا




چمن کا حسن سمجھ کر سمیٹ لائے تھے
کسے خبر تھی کہ ہر پھول خار نکلے گا

کالی داس گپتا رضا




پھول کر لے نباہ کانٹوں سے
آدمی ہی نہ آدمی سے ملے

خمارؔ بارہ بنکوی




خدا کے واسطے گل کو نہ میرے ہاتھ سے لو
مجھے بو آتی ہے اس میں کسی بدن کی سی

نظیر اکبرآبادی




کئی طرح کے تحائف پسند ہیں اس کو
مگر جو کام یہاں پھول سے نکلتا ہے

رانا عامر لیاقت