لب خرد سے یہی بار بار نکلے گا
نکالنے ہی سے دل کا غبار نکلے گا
اگیں گے پھول خیالوں کے ریگ زاروں سے
خزاں کے گھر سے جلوس بہار نکلے گا
کہیں فریب نہ کھانا یہی فدائے جام
بوقت کار عجب ہوشیار نکلے گا
چمن کا حسن سمجھ کر سمیٹ لائے تھے
کسے خبر تھی کہ ہر پھول خار نکلے گا
یہ حکم ہے کہ کوئی راہ راست پر نہ چلے
ہوا کے گھوڑے پہ کوئی سوار نکلے گا
کسے نہیں ہے شکایت رضاؔ زمانے سے
ٹٹولو کوئی جگر داغدار نکلے گا
غزل
لب خرد سے یہی بار بار نکلے گا
کالی داس گپتا رضا