ہر دل جو ہے بیتاب تو ہر اک آنکھ بھری ہے
انسان پہ سچ مچ کوئی افتاد پڑی ہے
رہ رو بھی وہی اور وہی راہبری بھی
منزل کا پتہ ہے نہ کہیں راہ ملی ہے
مدت سے رہی فرش تری راہ گزر میں
تب جا کے ستاروں سے کہیں آنکھ لڑی ہے
ایسا بھی کہیں دیکھا ہے مے خانے کا دستور
ہر چشم ہے لبریز ہر اک جام تہی ہے
رخسار بہاراں پہ چمکتی ہوئی سرخی
کہتی ہے کہ گلشن میں ابھی صبح ہوئی ہے
سمجھا ہے تو ذرے کو فقط ذرۂ ناچیز
چھوٹی سی یہ دنیا ہے جو سورج سے بڑی ہے
دنیا میں کوئی اہل نظر ہی نہیں باقی
کوتاہ نگاہی ہے تری کم نظری ہے
مدہوش فضا مست ہوا ہوش کی مت پوچھ
وارفتگئ شوق ہے اک گم شدگی ہے
کانٹوں پہ چلے ہیں تو کہیں پھول کھلے ہیں
پھولوں سے ملے ہیں تو بڑی چوٹ لگی ہے
پھر سوچ لو اک بار ابھی وقت ہے جاویدؔ
شکوے میں کچھ اندیشۂ خاطر شکنی ہے
غزل
ہر دل جو ہے بیتاب تو ہر اک آنکھ بھری ہے
جاوید وششٹ