EN हिंदी
موفلسی شیاری | شیح شیری

موفلسی

32 شیر

دوشالہ شال کشمیری امیروں کو مبارک ہو
گلیم کہنہ میں جاڑا فقیروں کا بسر ہوگا

آغا اکبرآبادی




مفلسی بھوک کو شہوت سے ملا دیتی ہے
گندمی لمس میں ہے ذائقۂ نان جویں

عبد الاحد ساز




مفلسی سیں اب زمانے کا رہا کچھ حال نئیں
آسماں چرخی کے جوں پھرتا ہے لیکن مال نئیں

آبرو شاہ مبارک




غریب شہر تو فاقے سے مر گیا عارفؔ
امیر شہر نے ہیرے سے خودکشی کر لی

عارف شفیق




جو میرے گاؤں کے کھیتوں میں بھوک اگنے لگی
مرے کسانوں نے شہروں میں نوکری کر لی

عارف شفیق




عید کا دن ہے سو کمرے میں پڑا ہوں اسلمؔ
اپنے دروازے کو باہر سے مقفل کر کے

اسلم کولسری




دیو پری کے قصے سن کر
بھوکے بچے سو لیتے ہیں

عتیق الہ آبادی