EN हिंदी
مجی شیاری | شیح شیری

مجی

16 شیر

ہنسی میں کٹتی تھیں راتیں خوشی میں دن گزرتا تھا
کنولؔ ماضی کا افسانہ نہ تم بھولے نہ ہم بھولے

کنولؔ ڈبائیوی




یاد ماضی کی پراسرار حسیں گلیوں میں
میرے ہم راہ ابھی گھوم رہا ہے کوئی

خورشید احمد جامی




کئی نا آشنا چہرے حجابوں سے نکل آئے
نئے کردار ماضی کی کتابوں سے نکل آئے

خوشبیر سنگھ شادؔ




اللہ رے بے خودی کہ چلا جا رہا ہوں میں
منزل کو دیکھتا ہوا کچھ سوچتا ہوا

معین احسن جذبی




ٹہنی پہ خموش اک پرندہ
ماضی کے الٹ رہا ہے دفتر

رئیس امروہوی




ماضی سے ابھریں وہ زندہ تصویریں
اتر گیا سب نشہ نئے پرانے کا

راجیندر منچندا بانی




ماضیٔ مرحوم کی ناکامیوں کا ذکر چھوڑ
زندگی کی فرصت باقی سے کوئی کام لے

سیماب اکبرآبادی