EN हिंदी
مجی شیاری | شیح شیری

مجی

16 شیر

ماضی کے ریگ زار پہ رکھنا سنبھل کے پاؤں
بچوں کا اس میں کوئی گھروندا بنا نہ ہو

عبد الحفیظ نعیمی




وہ ماضی جو ہے اک مجموعہ اشکوں اور آہوں کا
نہ جانے مجھ کو اس ماضی سے کیوں اتنی محبت ہے

اختر انصاری




یاد ماضی عذاب ہے یارب
چھین لے مجھ سے حافظہ میرا

اختر انصاری




بند کر دے کوئی ماضی کا دریچہ مجھ پر
اب اس آئینے میں صورت نہیں دیکھی جاتی

اختر سعید خان




کریدتا ہے بہت راکھ میرے ماضی کی
میں چوک جاؤں تو وہ انگلیاں جلا لے گا

عزیز بانو داراب وفا




حسرت دل نامکمل ہے کتاب زندگی
جوڑ دے ماضی کے سب اوراق مستقبل کے ساتھ

فگار اناوی




یادوں کی بوچھاروں سے جب پلکیں بھیگنے لگتی ہیں
سوندھی سوندھی لگتی ہے تب ماضی کی رسوائی بھی

گلزار