شکوہ زبان سے نہ کبھی آشنا ہوا
نظروں سے کہہ دیا جو مرا مدعا ہوا
اللہ ری بے خودی کہ چلا جا رہا ہوں میں
منزل کو دیکھتا ہوا کچھ سوچتا ہوا
دنیا لرز گئی دل ایذا پسند کی
ناآشنائے درد جو درد آشنا ہوا
پھر اے دل شکستہ کوئی نغمہ چھیڑ دے
پھر آ رہا ہے کوئی ادھر جھومتا ہوا
غزل
شکوہ زبان سے نہ کبھی آشنا ہوا
معین احسن جذبی