EN हिंदी
ہے آج اندھیرا ہر جانب اور نور کی باتیں کرتے ہیں | شیح شیری
hai aaj andhera har jaanib aur nur ki baaten karte hain

غزل

ہے آج اندھیرا ہر جانب اور نور کی باتیں کرتے ہیں

عبید الرحمان

;

ہے آج اندھیرا ہر جانب اور نور کی باتیں کرتے ہیں
نزدیک کی باتوں سے خائف ہم دور کی باتیں کرتے ہیں

تعمیر و ترقی والے ہیں کہیے بھی تو ان کو کیا کہیے
جو شیش محل میں بیٹھے ہوئے مزدور کی باتیں کرتے ہیں

یہ لوگ وہی ہیں جو کل تک تنظیم چمن کے دشمن تھے
اب آج ہمارے منہ پر یہ دستور کی باتیں کرتے ہیں

اک بھائی کو دوجے بھائی سے لڑنے کا جو دیتے ہیں پیغام
وہ لوگ نہ جانے پھر کیسے جمہور کی باتیں کرتے ہیں

اک خواب کی وادی ہے جس میں رہتے ہیں ہمیشہ کھوئے ہوئے
دھرتی پہ نہیں ہیں جن کے قدم وہ طور کی باتیں کرتے ہیں

ہم کو یہ گلہ محبوب انہیں افسانۂ بزم عیش و طرب
شکوہ یہ انہیں ہم ان سے دل رنجور کی باتیں کرتے ہیں

کیا خوب ادا ہے ان کی عبیدؔ انداز کرم ہے کتنا حسیں
مجبور کے حق سے ناواقف مجبور کی باتیں کرتے ہیں