EN हिंदी
مشھورا شیاری | شیح شیری

مشھورا

33 شیر

بات کا زخم ہے تلوار کے زخموں سے سوا
کیجیے قتل مگر منہ سے کچھ ارشاد نہ ہو

داغؔ دہلوی




نہ گرد و پیش سے اس درجہ بے نیاز گزر
جو بے خبر سے ہیں سب کی خبر بھی رکھتے ہیں

دل ایوبی




اس سے پہلے کہ لوگ پہچانیں
خود کو پہچان لو تو بہتر ہے

دواکر راہی




دنیا تو چاہتی ہے یونہی فاصلے رہیں
دنیا کے مشوروں پہ نہ جا اس گلی میں چل

حبیب جالب




بد تر ہے موت سے بھی غلامی کی زندگی
مر جائیو مگر یہ گوارا نہ کیجیو

حفیظ میرٹھی




زخم جو تو نے دیے تجھ کو دکھا تو دوں مگر
پاس تیرے بھی نصیحت کے سوا ہے اور کیا

عرفان احمد




کبھی بھول کر کسی سے نہ کرو سلوک ایسا
کہ جو تم سے کوئی کرتا تمہیں ناگوار ہوتا

اسماعیلؔ میرٹھی