مے کدے کی طرف چلا زاہد
صبح کا بھولا شام گھر آیا
the priest now proceeds towards the tavern's door
to the true path returns he who strayed before
کلیم عاجز
زندگی نام اسی موج مے ناب کا ہے
مے کدے سے جو اٹھے دار و رسن تک پہنچے
کمال احمد صدیقی
گزرے ہیں میکدے سے جو توبہ کے بعد ہم
کچھ دور عادتاً بھی قدم ڈگمگائے ہیں
خمارؔ بارہ بنکوی
مے کدہ جل رہا ہے تیرے بغیر
دل میں چھالے ہیں آبگینے کے
لالہ مادھو رام جوہر
دور سے آئے تھے ساقی سن کے مے خانے کو ہم
بس ترستے ہی چلے افسوس پیمانے کو ہم
نظیر اکبرآبادی
سرک کر آ گئیں زلفیں جو ان مخمور آنکھوں تک
میں یہ سمجھا کہ مے خانے پہ بدلی چھائی جاتی ہے
نشور واحدی
نکل کر دیر و کعبہ سے اگر ملتا نہ مے خانہ
تو ٹھکرائے ہوئے انساں خدا جانے کہاں جاتے
if on leaving temple,mosque no tavern were be found
what refuge would outcasts find? this only God would know
قتیل شفائی